اپنی خواب گاہ میں مردہ پائے گئے عامر لیاقت کی موت نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ مختلف اور غیر مصدقہ بیانات کے مطابق عامر کے بازو اور کندھے کی ہڈی ٹوٹی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ جن ان کو اسپتال لے جایا گیا تو ان کی ناک سے لگتا تھا کہ لہو بھی بہا ہوگا۔ ان کے ہونٹوں کا رنگ نیلا پڑنا شروع ہو چکا تھا۔ عامر کے انتقال کے فوری بعد آنے والی خبروں سے لگتا تھا کہ ان کے لواحقین عامر کا پوسٹ مارٹم کرانا چاہتے ہیں۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ ان کی پہلی بیوی اور ان کے بچوں نے اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کردیا تھا۔ انکار کی وجوہات میں، کہیں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عامر لیاقت ایک شہور شخصیت تھے اور عین ممکن تھا کہ ان کی رپورٹ ورثاء کے پاس پہنچنے سے پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی۔ دانیہ نے عامر کو جو صدمہ دیا، اس کے بعد سے عامر بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں مبتلاء رہنے لگے تھے۔ ساری زندگی کی انتھکی محنت سے عامر نے جو ساکھ بنائی تھی اس کو دانیہ نے چند ویڈیوز کے ذریعہ سے ملیا میٹ کردیا تھا۔ عامر کے گھر والوں نے پوسٹ مارٹم سے انکار کرنے سے خاندانی سطح پر اچھی طرح مشاورت کی جس دوران ایک پہلو یہ بھی مدنظر رکھا گیا کہ اگر پوسٹ مارٹم میں عامر کی موت خودکشی قرار دے دی جاتی ہے تو اس سے عامر کے ورثاء ان کے بیمہ کے پیسے نہیں لے سکیں گے۔عامر کی پراسرار حالات میں موت پر بھی ان کی بیمہ کمپنی نے بھی پوسٹ مارٹم پر اسرار نہیں کیا اس بات کا جواب ابھی تک مطلوب ہے۔ تدفین ہو جانے کے بعد، بلا اجازت مجسٹریٹ، کسی مدفون کی قبر کشائی نہیں کی جاسکتی۔ عامر کے ایک مداح نے مجسٹریٹ کے سامنے درخواست گذاری ہے کہ عامر کو درپیش حالات سے قیاس کرتے ہوئے ان کی موت بظاہر غیر طبعی ہے، اس لیے بغرض تحقیق قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کی اجازت دی جاوے۔ عدالت نےدرخوست پر متعلقہ فریقین کو روبرو حاضر آنے کے لیے نوٹس جاری کیے۔ سماعت کے دوران، ایکسپرٹ رائے زنی کے طور پر پولیس سرجن نے عدالت کو بتایا کہ جب تک جسم کا اندرونی جائزہ نہیں لیتے موت کی وجوہات معلوم نہیں کر سکتے۔سرکاری وکیل سجاد علی دشتی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس حکام نے لاش کے پوسٹ مارٹم پر اصرار کیا مگر ورثا پوسٹ مارٹم کرانا نہیں چاہتے کہیں مرحوم کی روح کو تکلیف نہ پہنچے۔ ورثا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کو کسی پر شک نہیں ہے کہ کوئی عامر کی جان لینے کے لیے ایسا کرسکتا ہے۔ اگر عدالت قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کا حکم دیتی ہے تو مجوزہ قواعد کے مطابق ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے گا، مجسٹریٹ موصوف، پولیس اور بورڈ کے ایک ممبر ڈاکٹر کی موجودگی میں قبر کشائی ہوگی جس کے بعد عامر کے جسد خاکی کو پولیس نگرانی میں پتھالوجی سیکشن منتقل کرکے اس جا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔تدفین کو کافی دن بیت چکے ہیں۔ قدرتی طور پرعامر کی باقیات کافی نازک ہوگئی ہونگی۔ اکثر علامات وقت گذرنے کے ساتھ معدومہو گئی ہوںگی۔ البتہ عامر کے اندرونی اعضاء بہت کچھ بتا سکتے ہیں۔ عامر کی موت بلاشبہ پراسرار حالات میں ہوئی، مگر مقامی پولیس نے سستی دکھائی جس کی وجہ سے تدفین ہوگئی۔ اگر پولیس اسی وقت مقامی مجسٹریٹ سے پوسٹ مارٹم کے احکامات لے لیتی تو ورثاء کے لاکھ احتجاج پر بھی پوسٹ مارٹم ہو کر رہتا۔فوجداری قوانین میں ایک طے زدہ اصول ہے کہ اگر تفتیشی ادارہ، افسر یا متعقلہ فریق عدالت مجاز کے سامنے متوفی کی موت کو مشکوک ثابت کردے تو عدالت فی الفور ایکسھیومیشن کے احکامات کر سکتی ہے۔ عین ممکن ہے عامر کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم ان پر تشدد ثابت کردے جس سے تفتیش کا رخ کسی اور جانب نکل پڑے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عامر کی موت کسی دوا یا مواد کی زیادہ مقدار استعمال کر لینے سے ہوئی ہو۔ اور یہ بھی کہ شائد عامر ہارٹ فیل کا شکار ہوئے ہوںیہ سب باتیں فی الحال مطض قیافہ ہیں۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ یقینا بہت سے سوالوں کا جواب لائے گی۔ اور عامر بھی، کیونکہ ان کو دعاؤں کی اشد ضرورت ہے، چاہیں گے ان کے حوالے سے کوئی دروغ گوئی سے کام نہ لے۔
اپنی خواب گاہ میں مردہ پائے گئے عامر لیاقت کی موت نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ مختلف اور غیر مصدقہ بیانات کے مطابق عامر کے بازو اور کندھے کی ہڈی ٹوٹی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ جن ان کو اسپتال لے جایا گیا تو ان کی ناک سے لگتا تھا کہ لہو بھی بہا ہوگا۔ ان کے ہونٹوں کا رنگ نیلا پڑنا شروع ہو چکا تھا۔ عامر کے انتقال کے فوری بعد آنے والی خبروں سے لگتا تھا کہ ان کے لواحقین عامر کا پوسٹ مارٹم کرانا چاہتے ہیں۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ ان کی پہلی بیوی اور ان کے بچوں نے اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کردیا تھا۔ انکار کی وجوہات میں، کہیں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عامر لیاقت ایک شہور شخصیت تھے اور عین ممکن تھا کہ ان کی رپورٹ ورثاء کے پاس پہنچنے سے پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی۔ دانیہ نے عامر کو جو صدمہ دیا، اس کے بعد سے عامر بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں مبتلاء رہنے لگے تھے۔
0 تبصرے
LIKE N SHARE