کیا خواتین کو انکے شوہر گھر سے بے گھر کر سکتے ہیں؟ قانون کی نظر میں عورت کے کیا حقوق ہیں ؟
پاکستان اور بھارت کی شادی شدہ خواتین کو درپیش بہت سے اور مسائل کے ساتھ، ایک مسئلہ ان کی گھر سے بے دخلی بھی درپیش ہوتا ہے۔ عدالت میں لائے گئے ایسے ہر دوسرے فیملی مقدمہ میں خاتون کی جانب سے دئیے گئے بیان میں ایک سطر، گھر سے زبردستی نکالے جانے پر ضرور کہی گئی ہوتی ہے۔جبکہ مرد کی جانب سے اسرار ہوتا ہے کہ عورت خود ہی گھر چھوڑ کے گئی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی بھی عدالت نے اس سوال کو کو قابل غور امر نہیں سمجھا کہ اگر عورت گھر سے نکلی تو کیوں؟ اور نکالی گئی تو کیوں؟
لکھے گئے قوانین میں، اور ان کی تشریحات میں یوں تو شادی شدہ عورت کو اسکے جائے رہائش سےاسکا شوہر بے دخل نہیں کرسکتا، نہ ہی اخلاقیات اس کی اجازت دیتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود آئے دن شادی شدہ خواتین اپنے شوہروں کی جانب سے یا سسرالیوں کی جانب سے نکالی جاتی ہیں۔
شوہروں کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ بیویوں کو گھر سے بے دخل کریں۔معانکہ قانونی اعتبار سے ان کے مابین شادی جیسا معاشرتی اقرارنامہ قائم نہ رہ گیا ہو۔ قانون بھی ایسی صورتوں میں عموما علاقائی رسوم و رواج اور مذھبی احکامات کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے یورپی اور امریکی ریاستوں میں خواتین شادی سے پہلے ہی علیحدگی کے وقت کی شرائط طے کر لیتی ہیں۔ ان کو پرینپچویل اگریمنٹ کہتے ہیں۔ ایسی ہی شرائط برصغیر میں بھی طے ہوتی ہیں اور قانون کی نظر میں ان کا احترام کیا جاتا ہے۔
برصغیر کے معاشرے میں عورت کو صنف نازک گردانا جاتا رہا ہے، تقسیم ھند سے پہلے بھی اور بعد میں بھی مرد کے سائے سے آزاد ہوکر خود مختار عورتوں کی مثال نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو عورت معاشرے میں مالی طور پر مستحکم اور خود مختار ہو گی، وہ اپنا گھر خود بنا لے گی۔ کسی شادی شدہ عورت کا گھر سے نکالا جانا، عموماگھریلو اختلاف اور جھگڑے کے باعث ہوتا ہے۔ اور جھگڑے طول پکڑتے ہیں جب فریقین اپنی ضد پر اڑ جائیں۔ ایسی صورتحال میں بات چیت سے معاملہ حل ہوسکتا ہے، بعض جگہوں پر ثالثی فریق کے لئے کی ضرورت پیش آسکتی ہے، مگر یہ سب حربے اس وقت استعمال ہوسکتے ہیں جب مرد و عورت اپنے اختلافات کو حل کرنا چاہیں۔ اگر اختلافات نہ حل پذیر ہوں تو خوش اسلوبی سے علیحدگی اختیار کر لینا تمام فریقین کے لیے بہتری کا باعث ہوتا ہے۔
0 تبصرے
LIKE N SHARE