یوکرائین پر حملے کے بعد سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ممالک تجارتی اور مالیاتی پابندیاں لگا کرروس کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ نیٹو کی جانب سے بھی روس کے خلاف کھلے بندوں فوج اتارنے سے انکار کے بعد سے یوکرائینی صدر زلینسکی دنیا کی پارلیمانوں سے روس کیخلاف آواز اٹھانے کی اپیلیں کرتے پھر رہے ہیں۔
روس پر معاشی پابندیوں کے بعد سے چین روسی خام تیل کا سب سے بڑا خریدار بن کر سامنے آیا ہے۔ جس نے دنیا کی مخالفت کے باوجود روس سے تیل کی خریداری جاری رکھی ہوئی ہے۔ بھارت بھی اب چین کے ساتھ اپنے ہوئے لداخ کے تنازعہ کو بھلا کر روس سے تیل خریدنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ امریکی اخبارات ان دنوں بھارت اور چین کے خلاف خوب زہر اگل رہے ہیں۔
اس سارے معاملے میں بھارتی دفتر خارجہ نے اپنے سفارتکاروں کی جانب سے امریکہ کو صاف پیغام پہنچایا ہے کہ بھارت اپنے اور امریکہ کے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے مگر اپنے معاشی معاملات میں بھارت مکمل خودمختار فیصلے کرتا آیا ہے اور آئندہ بھی بلا ڈکٹیشن ایسا ہی کرنا چاہتا ہے۔ بھارت روس اور یوکرائین تنازعہ کا پر امن حل چاہتا ہے۔ روس سے تیل خریدنے کا مطلے یہ نہ سمجھا جائے کہ بھارت روس کے اقدامات کی تائید کرتا ہے۔
چین اور بھارت نے اپنے آپ کو روس اور یوکرائین معاملے میں غیر جانبدار رکھتے ہوئے روس سے تیل کی خریداری جاری رکھ کے اقتصادیات کی شطرنج پر ایک گہری اور دور رست چال چلی ہے۔ مغربی ممالک تیل کی رسد نہ ہونے کی وجہ سے اپنی پیداواری رفتار کو کم کر چکے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کے پاس بہترین موقع ہے کہ پٹرولیم مصنوعات ایکسپورٹ کرکے کروڑوں ڈالر کا منافع کما سکے۔
0 تبصرے
LIKE N SHARE