Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

طالبان کی بڑی دھمکی ۔۔۔ پاکستان کا کرارا جواب۔

فاٹا (فیڈرلی ایڈمنسٹرڈ ٹرائیبل ایریا) پاکستان کے شمال مغربی صوبہ، خیبر پختونخواہ کے ساتھ علاقہ  ہے،  جوافغانستان اور پاکستان کی ڈیورینڈ لائن پر ایک بفر زون کی حیثیت رکھتا تھا۔ 1969ء سے پہلے سوات، دیر اور چترال بھی اسی فاٹا کا حصہ تھے۔  جنرل یحیٰ  کے دور میں  یہ تینوں صوبہ سرحد میں ضم کردیےگئے، مگر باقی علاقہ جات کو قبائلی نظامت میں ہی رہنے دیا گیا۔ عرصہ  سے امریکہ افغان جنگ سے بھاگے ہوئے طالبان اور ان کے حمائیتی شدت پسندپاکستان کے زیر انتظام فاٹا علاقوں میں دخل اندازی   کرکے وہاں کا نظم و ضبط اور امن خراب   کر رہے تھے ۔ بالآخر جنرل راحیل شریف کے مشورے پر سابق وزیر اعظم  میاں محمد نواز شریف  نے شرپسندوں کے خلاف  ضرب عزم آپریشن  کا حکم دیا۔   اس  مشکل اور صبر آزما آپریشن میں پاکستانی فوج  نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت  کے جوہر دکھا کراور اپنے جوانوں کی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر کے کامیابی  حاصل کی اور فاٹا کے عوام کو شدت پسندوں کے چنگل سے آزاد کیا۔ گو کہ عالمی سطح پر اس آپریشن کو بہت پذیرائی ملی، مگر عوامی سطح پر اس آپریشن کے مخالفین نے پاکستانی مسلح افواج اور حکومت قوت پر خوب تنقید کی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان نیم خودمختار فاٹا اپنی سیاسی ، معاشرتی اور جغرافیائی نوعیت کے اعتبار سے ایک منفرد خصوصیت کا حامل تھا اور یہاں نظام ایف سی آر کے قواعد و ضوابط  کے تحت چلایا جاتا تھا ۔

ان حالات میں ضرب عزم آپریشن  کے دوران پیش آئی سنگینی کو مدنظر ہوئے  پاکستان کی قومی اسمبلی نے فاٹا علاقوں کے مسائل کے باضابطہ حل کے طور پر اور پاکستان کی سالمیت ، خودمختاری اور فاٹا کی عوام  پر منڈلاتے شدت پسندوں ، طالبان   اور ان کے حمائتیوں کے خطرے کو ٹالنے کے لیے 2018 ء  میں اکتیسویں  ترمیم  کے ذریعہ فاٹا کی نظامت صوبہ خیبر پختونخواہ کے حوالے کر دی ۔    طالبان   اور ان کے حمائتی شدت پسندوں نے پاکستان کے اس اقدام کو قبول  نہ کیا اور اپنی کاروائیاں جاری رکھیں ۔2018ء سے اب تک پاکستانی حکومت نے فاٹا حدود میں کوئی رد و بدل نہیں کیا ،  مگر مستقبل میں ترقیاتی کام، فنڈز، انتخابات اور دیگر انتظامات کے لیے حلقہ بندیوں کی ضرورت اور کانٹ چھانٹ ناگذیر ہے۔ 

اس مسئلہ کا حل نکالنے کے لئے پاکستانی حکومت کے تعاون سے  ، افغان حکومت، طالبان اور قبائلی سربراہان  کے 57 رکنی جرگہ کا انعقادکابل میں کرایا تھا  جس میں مذاکرات کے دوران تحریک طالبان نے پاکستا ن کے ساتھ غیر معینہ مدت تک سیز فائر کا اعلان کیا تھا ۔  یاد رہے کہ پاکستان  میں دراندازی اور مداخلت  ثابت ہونے پر حکومت نے تحریک طالبان کو کالعدم قرار  دے کر اس پر پابندی  عائد کر دی تھی ۔ جرگہ کے دوران طالبان اس بات پر بضد رہے کہ پاکستان فاٹا کو ضم کرنے کا فیصلہ واپس لے۔پاکستانی ترجمان کے مطابق طالبان کو اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انضمام کا فیصلہ پارلیمان کی منظوری سے ہوا ہے اور اس کے لیے آئین کے تحت ایک طریقہ کار وضع شدہ ہے۔ صرف پارلیمان ہی اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کر سکتی ہے اور اس کے لیے اکثریت کا پیمانہ بھی پاکستان کے آئین میں درج ہے۔

طالبان اگر فاٹا کو پرانی حیثیت پر بحال کرنے کے اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوتے تو خدشہ ہے کہ ان کے دیگر مطالبات جیسے ان کے لیڈران کی رہائی،  قبائلی علاقوں سے فوج کا انخلا، تنظیمی سرگرمیوں کی بحالی وغیرہ بھی مانے نہیں جائیں گے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے