ان حالات میں ضرب عزم آپریشن کے دوران پیش آئی سنگینی کو مدنظر ہوئے پاکستان کی قومی اسمبلی نے فاٹا علاقوں کے مسائل کے باضابطہ حل کے طور پر اور پاکستان کی سالمیت ، خودمختاری اور فاٹا کی عوام پر منڈلاتے شدت پسندوں ، طالبان اور ان کے حمائتیوں کے خطرے کو ٹالنے کے لیے 2018 ء میں اکتیسویں ترمیم کے ذریعہ فاٹا کی نظامت صوبہ خیبر پختونخواہ کے حوالے کر دی ۔ طالبان اور ان کے حمائتی شدت پسندوں نے پاکستان کے اس اقدام کو قبول نہ کیا اور اپنی کاروائیاں جاری رکھیں ۔2018ء سے اب تک پاکستانی حکومت نے فاٹا حدود میں کوئی رد و بدل نہیں کیا ، مگر مستقبل میں ترقیاتی کام، فنڈز، انتخابات اور دیگر انتظامات کے لیے حلقہ بندیوں کی ضرورت اور کانٹ چھانٹ ناگذیر ہے۔
اس مسئلہ کا حل نکالنے کے لئے پاکستانی حکومت کے تعاون سے ، افغان حکومت، طالبان اور قبائلی سربراہان کے 57 رکنی جرگہ کا انعقادکابل میں کرایا تھا جس میں مذاکرات کے دوران تحریک طالبان نے پاکستا ن کے ساتھ غیر معینہ مدت تک سیز فائر کا اعلان کیا تھا ۔ یاد رہے کہ پاکستان میں دراندازی اور مداخلت ثابت ہونے پر حکومت نے تحریک طالبان کو کالعدم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی تھی ۔ جرگہ کے دوران طالبان اس بات پر بضد رہے کہ پاکستان فاٹا کو ضم کرنے کا فیصلہ واپس لے۔پاکستانی ترجمان کے مطابق طالبان کو اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انضمام کا فیصلہ پارلیمان کی منظوری سے ہوا ہے اور اس کے لیے آئین کے تحت ایک طریقہ کار وضع شدہ ہے۔ صرف پارلیمان ہی اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کر سکتی ہے اور اس کے لیے اکثریت کا پیمانہ بھی پاکستان کے آئین میں درج ہے۔
طالبان اگر فاٹا کو پرانی حیثیت پر بحال کرنے کے اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوتے تو خدشہ ہے کہ ان کے دیگر مطالبات جیسے ان کے لیڈران کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کا انخلا، تنظیمی سرگرمیوں کی بحالی وغیرہ بھی مانے نہیں جائیں گے۔
0 تبصرے
LIKE N SHARE