یوکرائینی صدر زلینسکی نے پچلھے ماہ سے دنیا کے اہم ملکوں کی پارلیمان سے خطاب کرکے روس کے خلاف سفارتی حمایت حاصل کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس مہم میں برطانیہ، فرانس اور امریکہ زلینسکی کی بھرپور امداد بھی کر رہے ہیں۔ یورپی ممالک سے روس کے خلاف اسلحہ یوکرائین کو تواتر کے ساتھ مہیا کیا جا رہا ہے۔ زلینسکی نے دنیا میں اپنی اس سفارتی مہم میں زلینسکی نے افریقی یونین کی پارلیمان سے بھی خطاب کیا۔
فرانس ، امریکہ، ولندیز اور برطانیہ کا خیال تھا کہ صدیوں سے ہماری قائم کردہ کالونیوں کے زیر اثر افریقی عوامی سربراہان زلینسکی کی حمایت کا وعدہ کریں کے اور روس کی جارحیت کی بھرپور مزمت کریں گے۔ مگر برطانیہ اور اسک کے حواریوں کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب افریقی سربراہان نے روس کا ساتھ دینا زیادہ مناسب سمجھا۔
افریقی لیڈران کا یہ فیصلہ کوئی حیران کن نہیں تھا۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس اور ولندیز پچھلے 70 سالوں سے افریقہ میں خانہ جنگی اور فروغ دے کر اپنا اسلحہ بیچتے رہے ہیں۔ اور آج اگر افریقہ کو وہی اسلحہ اور فوجی کمک روس سے سستے داموں اور آسان شرائط پر دستیاب ہے تو کیوں نہیں؟ صدر زلینسکی کا خطاب افریقی پارلیمان پر بالکل موثر نہیں ہوا۔ بلکہ افریقی صدور، میکی سال، سائرل رامافوسا، ماسکو سے رابطے میں ہیں اور روس کے ساتھ فوجی امداد اور اسلحہ وغیرہ کے معاہدات طے کر رہے ہیں۔ روس کی پرائیوٹ جنگجو کمپنیاں افریقہ میں علاقائی حکومتوں کے ساتھ مل کر مہمات کرتی رہتی ہیں۔ اس واقع نے افریقہ میں قائم سفید فام ملکوں ِفرانس، برطانیہ، ولندیز) کے زیر انتظام کالونیوں کے جواز پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
فرانس نے فورا کیمرون کے صدر کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ دہشت گردی سے نبٹنے کے لیےاور انفراسٹرکچر کی تعمیرومرمت کے لیے امداد دیتے رہیں گے۔
روس کی افریقہ میں بڑھتی مقبولیت کو دیکھ کر مغربی میڈیا نے روس کی فوجی تنظیم واگنر پر قتل و غارت گری کے الزامات کی خبریں شائع کرنا شروع کردی ہیں۔
0 تبصرے
LIKE N SHARE