Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

قتل ایک سازش۔۔۔۔انتقامی کاروائی

١١نومبر ١٩٧۴ کی ایک سیاہ رات نے پاکستا ن کی سیاسیات  میں کہرام برپا کر دیا, ایک  قتل نے منظر ہی بدل دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ  پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی احمد رضا قصوری اپنی گاڑی میں والد کو لئے لاہور کے علاقے شادمان سے ماڈل ٹاون کیطرف رواں تھے انکی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی۔ گولیوں کی زد میں آکر احمد رضا قصوری کے والد ہلاک ہوگئے۔ بیٹے کی مدعیت میں ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کے الزام میں ایف آئی آر درج کر دی گی۔ صوبائی  حکومت نے ایک تحقیقات کے لئے لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج شفیع الرحمنکی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیاجس نے اپنی رپورٹ حکومت کو ٢٦ فروری ١٩٧۵ کو جمع کروائی جو کاغذوں میں قید ہو کر رہ گئی۔ قتل کے مقدمے کو سراغ نا ملنے کی وجہ دے کر بند کر دیا گیا۔ ٢۵ جولائی ١٩٦٦کو مارشل لاء کے ٢٠ دن بعد فیڈرل سکیورٹی فورس کے دو اہلکار گرفتار ہوئے جن کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان میں سے ایک نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر قتل سر انجام دیا۔ اس مقدمہ کے ایک متنازعہ کردار مسعود محمود، جن پر سروس کے دوران اختیاراتسے تجاوز کی انکوائریاں بھی تھی، اور فیڈرل سکیورٹی فورس کے انسپکٹر غلام حسین نے بھٹو کےخلاف وعدہ معاف گواہ بن کر اپنی سزا میں کمی کی استدعا کر لی۔ ٣ ستمبر ١٩٧٧ ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا۔ ١٠ دن بعد انہیں ضمانت تو مل گئی مگر  تین دن بعد ان کو دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے ضابطہ کے تحت اپنا اصل اختیار سماعت استعمال کرتے ہوئے مقدمہ کی شنوائی کی اور بھٹو کو ٹانکنے کا حکم دے دیا۔

 پاکستان کے سابق چیف جسٹس، آصف سعید خان کھوسہ کے سسر، جناب نسیم حسن شاہ صاحب بھی اس بینچ کا حصہ تھے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی۔ شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہ جوانی میں پرہیزگاری کرو کیونکہ بڑھاپے میں تو بھیڑیا بھی پرہیزگار ہو جاتا ہے۔ نسیم حسن شاہ صاحب مرحوم نے بھی وفات سے قبل لب کشائی کا جوکھمب اٹھایا اور جیو ٹی وی کو دئیے ایک انٹرویو میں کہا کہ، بینچ پھانسی کے فیصلے پر منقسم تھا، اور پھانسی کبھی نہ ہوتی مگر بھٹو صاحب نے عدالت کو ناراض کر لیا تھا۔

عدالتی قتل، بین الاقوامی سازش، غلط سیاسی فیصلے یا کچھ اور بھٹو کیس پر ملکی اور غیر ملکی سطح پر بہت سا مواد موجود ہے۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے