اکلیوں گاؤں کا دھرموں بھیل، لکڑیاں کاٹنے اور لوگوں کے گھروں کا پانی بھرنے کا کام کرتا تھا۔ اس کی بیوی 32 سالہ ملوکاں، پانچویں بار پیٹ سے تھی۔ غریب ہونے کے باعث دھرموں بھیل گاؤں کے دوسرے ہندوؤں کی طرح مقامی دائی سے ہی زچگیاں کرانے کو ترجیح دیتا تھا۔ اس سے پہلے ان کے چار بچے چند مہینوں کے ہو کر ہی مر جاتے تھے۔ اس بار دھرموں نے اپنی جورو کا الٹرا ساؤنڈ چیلھار ہسپتال سے کرایا تھا ۔ مشین پر بیٹھے ڈاکٹر دھرموں کو بتایا تھا کہ اس کی گھر والی آپریشن سے بچہ جنے گی کیونکہ بچہ لوگائی کے پیٹ میں گھوم گیا ہے۔
ڈاکٹر کی بتائی ہوئی تاریخ پر جون ایک کی شب، ملوکاں درد زہ میں مبتلا ہوئی تو دھرموں اسے لے کر علاقے کی ایک دائی کے پاس گیا۔ دائی نے ملوکاں کا معائنہ کیا مگر اس کی نازک ہوتی حالت کو دیکھتےہوئے اس نے دھرموں سے کہا کہ وہ اسے اسپتال لے جائے۔ صبح ایک ٹیکسی میں ڈال کر دھرموں ملوکاں کو چھاچھرو کے مقامی مشنری ہسپتال لے گیا۔
اسپتال کا عملہ ملوکاں کو آپریشن تھیٹر میں لے گیا۔ قریب ایک گھنٹے کے بعد عملے نے دھرموں سے کہا کہ بڑی ڈاکٹر نہیں ہے تو اپنی جورو کو مٹھی اسپتال لےجا اور جاتے ہوئے دھرمو کو کپڑے میں لپٹا مردہ بچے کا سر کٹا دھڑ تھما دیا اس سے پہلے کہ دھرموں سارے معاملے کو سجمھ پاتا، عملے کے دھرموں کو ملوکاں کی خطروں میں گھری زندگی کا بتایا اور جلدی سے مٹھی ہسپتال جانے کا کہا۔ دھرموں کی پہلی جورو تو مر چکی تھی اور دوسری ملوکاں، جس کا یہ پانچواں بچہ مرا تھا زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی۔۔ وقت ضائع کیے بنا، دھرموں ملوکاں کو ایک بار پھر گاڑی میں ڈال کر کے چھاچھرو سے قریب ایک گھنٹہ دور مٹھی کے ضلعی ہسپتال لے گیا ۔
ضلعی اسپتال کا عملہ ملوکاں کا معائنہ اور دھرموں کا نٹرویو کرنے کے بعد اس معاملے کی نزاکت کو بھانپ گیا اور بہانے سے ملوکاں کو حیدر آباد لے جانے کا کہا۔ مرتا کیا نہ کرتا، اپنی غربت اور قسمت کو کو ستا دھرموں اپنے مصائب کی گٹھری اٹھائے حیدر آباد کو چل پڑا۔ وہاں سرکاری اسپتال میں ملوکاں کا پیٹ چاک ہوا اور بنا دھڑ کے سر سے پاک ہوا۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نومولود بچوں کی شرح اموت زیادہ ہے۔ یونیسف کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں سے 65 بچے مردہ ہوتے ہیں۔ تھر کا علاقہ ان خطوں میں شامل ہیں جہاں دیگر علاقوں کے مقابلے میں یہ شرح زیادہ ہے۔
0 تبصرے
LIKE N SHARE