بین الاقوامی انٹیلیجنس تجزیہ کاروں کے نزدیک مغربی ممالک کو روس کی جانب سے یوکرائن پر حملے کا خدشہ ہوگیا تھا۔
روسی صدر پوٹن اس مہم جوئی سے باز رہیں اس کے لئے مغربی ممالک بالخصوص فرانس اور برطانیہ نے صدر پوٹن کے سیاسی حریفوں کو چوکنا کیا تاکہ وہ روس کے سیاسی منظر نامے پر ہلچل پیدا کر کے صدر پوٹن کی توجہ یوکرائن پر حملے سے دوسری جانب مبذول کرائیں۔ روس کی جانب سے یوکرائن پر حملے کے بعد بھی مغربی ممالک اس وہم میں مبتلا رہے کہ پوٹن اندرونی اور بیرونی دباؤ میں آکر اپنی فوج واپس بلانے کا حکم دیں گے۔ مگر پوٹن اور روس کی عوام تین ماہ گزر جانے کے بعد بھی بعد بردباری کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
روس یوکرائن تنازعہ کے باعث دنیا کی بڑی معیشتوں کو تیل اور گیس کی فراہمی میں تعطل کا سامنا ہے۔ ایندھن کی کمی کا شکار ہونے کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں پیداواری بحران کا سامنا ہے۔ یورپ، برطانیہ اور مغرب کے دیگر ممالک اجناس اور دوسری اشیائے صرف کی رسد میں کمی اور نرخ میں اضافے کا شکار ہو رہے ہیں۔
نسبتاً اچھے دنوں میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں امریکی معیشت کا چین کی بنائی اشیاء پر انحصار کم کرنے کے لئے چین کے ساتھ تجارتی ٹیرف بڑھا دیا تھا۔ کرونا لاک ڈاؤن کے بعد ابھی منڈیوں کی بحالی پوری طرح نہیں ہوئی تھی کہ روس نے یوکرائینی سرحد عبور کر ڈالی۔
روس کی جانب سے تیل کی سپلائی متاثر ہوئی تو گمان تھا کہ امریکہ اپنا تیل نکالنا شروع کر دے گا۔ مگر شاید امریکہ بڑی جنگ جیتنے کے لیے ایک چھوٹی لڑائی میں ہار مول لے رہا ہے کیونکہ جو بائیڈن انتظامیہ چین کے ساتھ تجارتی روابط پہلے جیسی شرائط پر بحال کرنے کے لئے رضامند دکھائی دیتی ہے۔
افغانستان سے پسپائی اختیار کرنے کے بعد یہ امریکہ کی دوسری بڑی شکست ہوگی۔ پچاس سال دنیا بھر میں جنگوں کی فرینچائز چلانے کے بعد بالآخر امریکہ اپنے روایتی حریفوں کے سامنے سرنگوں ہوگا۔ امریکی ریپبلیکن اس فیصلے پر تنقید کرتے نظر آئیں گے مگر حقیقت ان پر بھی عیاں ہے کہ چین کے ساتھ تجارت امریکہ کی ضرورت ہے۔
موجودہ عالمی حالات میں شائد امریکہ کے پاس یہی ایک آپشن ہے کیونکہ ماضی میں امریکی جنگوں میں مال غنیمت کے لئے شامل ہونے والے اتحادی بھی روس اور چین کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ سوئٹزرلینڈ کے کسی بینک میں رکھ کر بھول گئے ہیں۔
0 تبصرے
LIKE N SHARE