Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

بھارت میں بڑھتا امتیازی سلوک اور منافرت

بھارت میں روز بروز بڑھتی نفرت، طبقاتی تصادم اور عدم برداشت مل کر ایک سنگین صورتحال کی پیشن گوئی کرنے لگے ہیں۔  بھارت میں 1947ء کے بعد سے ہی مسلم، غیر ہندو اور نچلی جاتی کی کمیونٹیاں شدت پسند ہندو دھارمک گروہوں کے نشانے پر رہی ہیں۔ ماڈرن لبرل ازم اور پھر نیو لبرل ازم کے پجاری سرمایہ داروں نے معاشرے کی طرف اپنی اخلافی زمہ  داری نبھانے کی بجائے اپنے منافعوں کی شرح بڑھانے کو ترجیح دی اور اس معاشرتی تقسیم کو ختم کرنے کی بجائے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔


بین الاقوامی سطح پر اقتصادیات کے شعبہ میں داد پانے والے ، نوبل انعام یافتہ 'امرتیا سین' ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے علم اور تجربہ کی بنیاد پر بھارتیہ سرکار کی غیر جمہوری پالیسوں اور اقدامات پر سخت تنقید کی ہے۔

بھارتی ٹی وی چینل کو 2019ء میں دئیے اپنے ایک انٹرویو میں امرتیا کمار سین نے کہا کہ کشمیری لوگوں کے خلاف ہندوستانی سرکار کی حکمت عملی کسی کام کی نہیں، دنیا بھر میں جس کا پرچار کیا جاتا ہے اس بھارتی جمہوریت کے چہرے پر ایسی کاروائیاں کسی کلنک سے کم نہیں۔

بھارت کی سیاسی تاریخ میں غیر ہندو مظاہروں کو کچلنے کے لئے بھارتی سرکار خوفناک اور پر تشدد طریقے استعمال کرتی رہی ہے۔ اخبارات پر پابندیاں، کارکنوں کی گرفتاریاں، ماورائے عدالت قتل اور مخالفین کی املاک کو نقصان اور اس پر پولیس کی خاموشی اور پھر بعد میں ثالثی کردار ایسے عوامل ہیں جن سے بھارت میں غیر ہندو کمیونٹیاں  تنہا ہو جائیں گی اور ان کے پاس بھارت کا ساتھ دینے کی کوئی وجہ نہیں رہ جائے گی۔ 

امرتیا سین کہتے ہیں کہ اگر کوئِ مجھ سے میرے خوف کا پوچھے تو میں کہوں گا کہ بھارت نے موجودہ حالات سے میں بہت خوفزدہ ہوں۔ 

امرتیا سین کا یہ بیان نوپر (بے) شرما کے توہین آمیز بیان کے بعد بننے والے حالات کے تناظر میں آیا ہے۔ سین صاحب نے بالخصوص مغل شہزادے دارالشکوہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے فارسی ترجمہ نے دنیا میں  نے سنسکرت اپنیشدوں کو متعارف کرایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو کسی ایک کمیونٹی کے حوالے کرنا عقلمندی نہیں ہے ۔

امرتیا سین ، نیولبرلزم کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر اقتصادیات ہیں۔ اپنے مکتبہ فکر کے اعتبار سے امرتا سین سیکولرزم اور دیگر لبرل آزادیوں کے قائل ہیں۔ 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے