اسلام آباد کی ضلعی اور سیشن عدالت نے ہفتہ کو سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (اے ڈی ایس جے) افضل مجوکا 13 جولائی کو سہ پہر 3 بجے فیصلہ سنائیں گے۔
عمران اور بشری 3 فروری کو شوہر خاور فرید مانیکا کی طرف سے دائر شکایت پر مجرم قرار دیا گیا تھا، بشری کے پانچ بچوں کے والد خاور نے نے الزام لگایا تھا کہ عمران نے شرعی اصول عدت کو بورا کیے بغیر معانقعہ کیا تھا۔
جج قدرت اللہ نے عمران اور بشری وٹو کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی اور ہر ایک کو 500,000 روپے جرمانہ ادا
کرنے کا حکم دیاتھا۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ توشہ خانہ اور سایفر کیس کی سزاؤں کے ساتھ موافق تھا۔
اس سے قبل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاہ رخ ارجمند اس مقدمہ کی سماعت کر رہے تھے اور انہوں نے مئی میں فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ تاہم، پاکستانی معاشرے کی کچھ روائیتی مصلحتوں کے پیش نظر شاہ رخ نے کی سماعت سے دستبردارہوتے ہوئے کیس کی منتقلی کا گذارش کی جس پر یہ معاملہ جج مجوکا کی عدالت میں منتقل کر دیا گیا۔
گزشتہ ماہ، جج مجوکا نے عمران اور بشری وٹو خان کی جانب سے سزاؤں کی معطلی کی استدعا کو مسترد کر دیا تھا۔
13 جولائی کی صجح خاور کے وکیل زاہد آصف نے دلائل کے دوران کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے گزشتہ کارروائی کے دوران گواہوں کو عدالت میں لانے کا ذکر کیا تھا۔ اگر وہ گواہ لانا چاہتے ہیں تو خاور کو کوئی اعتراض نہیں ہے، کیونکہ عدالت کیس کے دوران کسی بھی موقع پر شہادت اور گواہی قبول کر سکتی ہے۔
پچھلی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے، وکیل آصف نے کہا کہ بشری یا عمران کسی نے بھی اپنی عرضیات میں حنفی مسلک سے واپستگی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی مفتی سعید نے اس بارے میں کچھ کہا ہے۔ خاور کے وکیل کا دعوی ہے کہ عمران کے اختیار کیے ہوئے موقف سے لگتا ہے کہ اس سارے کیس کی ذمہ داربشریٰ وٹو ہیں۔ عمران اور بشری وٹوں خان اپنے کسی بیان میں یہ نہیں بتایا کہ ان کی شادی عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ موقع ملنے کے باوجود انہوں نے گواہوں کو عدالت میں پیش کرنے سے بھی انکار کیا۔
اس دوران جج مجوکہ نے قرآن سے اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا وہاں میں زنا کی کوئی سزا مقرر ہے؟
اس کے بعد عمران کے وکیل، لاہور ہائیکورٹ حاضر سروس جج کے سالے اور مرحوم راجہ اکرم کے بیٹے سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 میں90 دن کی دلیل (عدت کی مدت) کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ راجہ نے کہا، "اگر فوج کی من گھڑت دلیل کو مان لیں تو قانون میں سقم واقع ہوگا مگر عمران اور بشری کی شادی کو دھوکہ نہیں کہا جا سکتا،" راجہ نے کہاکہ خاور نے خود اپنے بیان میں بشریٰ وٹوخان کو اپنی سابقہ اہلیہ تسلیم کیا تھا۔ راجہ کے دلائل سمیٹنے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
عمران اور بشریٰ، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 496 کے تحت قصوروار قرار پائے ہیں ۔ قانون میں، دفعہ 496 کو حدود زنا سے مکمل طور پر الگ جرم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی عدالتوں کے مطابق، عدت کے دوران نکاح کو رسمی شکل دینے سے نکاح فسخ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے لیے علیحدہ اعلان کی ضرورت ہوتی ہے۔ قانونی فکشن کے لحاظ سے اسے فاسد سمجھا جائے گا لیکن باطل نہیں ہوگا۔
0 تبصرے
LIKE N SHARE